سلیم صافی ، مرزا اسلم بیگ شرم کرو ، تصوف کب سے امریکیوں کی ایجاد ہوگیا ؟

ندائے ملت

شام اور عراق کے وسیع علاقے پر خلافت قائم کرنے والی تنظیم داعش ک خلاف امریکہ ، عرب وہابی بادشاہتوں اور یورپ نے ملکر ایک اتحاد قائم کیا ہے اور داعش کو پوری دنیا کے لئے بہت بڑا خطرہ بتایا جارہا ہے
وہابی عرب بادشاہتوں کو داعش اس لیے خطرہ لگ رہی ہے کہ اس نے اپنی کاروائياں صرف صوفی سنّی اور شیعہ اکثریتی آبادی کے ممالک اور غیر وہابی حکومتوں تک محدود نہیں کیں بلکہ اس نے گلف عرب ریاستوں کی سرحدوں پر بھی دستک دینا شروع کردی
جبکہ امریکہ اور یورپ کے ملکوں کو داعش اس لیے بڑا خطرہ لگنے لگی ہے کہ ایک تو اس نے بشار الاسد کے ساتھ ساتھ کردستان کے اوپر بھی قبضہ کرنے کی طرف پیش قدمی شروع کردی جبکہ دوسرا یہ عراق کے سنّی عرب علاقوں سے شیعہ – سنّی مکس آبادی کے ان شہروں کی طرف بڑھنا شروع ہوگئی جہاں پر عراق کی موجودہ حکومت کی عمل داری موجود ہے
سعودی عرب کی وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے گرینڈ مفتی شیخ عبدالعزیز آل شیخ اگرچہ داعش کے خلاف فتوی دے چکے لیکن سعودی وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ اور سعودی وہابی تکفیری اثرات سے متاثر بہت سے حلقے داعش کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں
گلف کی وہابی ریاستوں کا حامی وہابی -دیوبندی کیمپ داعش کے خلاف سازشی تھیوریز عوام کے ذھنوں میں انڈیلنے کی کوشش کررہا ہے اور وہ اسے امریکی – اسرائیلی شازش بتلاتا ہے
ہفت روزہ ” ندائے ملت ” جو کہ نوائے وقت گروپ کا میگزین ہے نے اپنی مسلسل تین اشاعتوں میں ” داعش ” کے متعلق یہ تھیوری پیش کی ہے کہ یہ تنظیم شام اور عراق میں سنّی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور امریکی فوج اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کے لیے بنی تھی لیکن اس کی کاروائيوں سے لگتا ہے کہ اس کی لیڈر شپ امریکا اور اسرائیل کے ہاتھ بک گئی ہے
یہ تجزیہ ” ندائے ملت ” کے ایڈیٹر انیس الرحمان کا ہے جوکہ وہابی نام نہاد جہادی تںطیموں کے بہت بڑے حامی ہیں اور انیس الرحمان اس تنظیم کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر شیعہ کا قتل عام بھی امریکی سازش بتلاتے ہیں
اصل میں ” وہابی دھشت گردی ” کو اسلامی جہادی تحریک کا نام دینے والے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے اخبارات ، جرائد ، رسائل ، میگزین میں ” عالمی جہاد ” اور ” خلافت ” کے دلکش عنوانوں سے جو یوٹوپیا عام مسلمانوں میں قائم کرنے کی کوشش کی تھی اور ان کو یہ یقین دلانے کی سعی کی تھی کہ ان نام نہاد ” جہادی تحریکوں اور تنظیموں ” کی کوششوں سے مسلم ملکوں کا زوال ، عروج میں بدل جائے گا اور مسلم دنیا کی بدحالی خوش حالی میں بدل جائے گی کی تعبیر بہت خوفناک شکل میں سامنے آئی ہے
یہ وہابی – دیوبندی دھشت گرد تنظیمیں لاکھوں صوفی سنّی ، شیعہ اور ہزاروں غیر مسلموں کو قتل کرچکی ہیں ، مزارات ، مساجد ، گرجا گھر ، مندر ، بازار ، گلیاں ، محلے ، ریلوے اسٹیشن ، ائرپورٹ ، دفاتر کچھ چیز بھی ان کے وحشیانہ اور درندگی پر مبنی حملوں سے محفوظ نہیں رہی
مڈل ایسٹ کے ساتھ ساتھ خود پاکستان میں ستر ہزار سے زیادہ صوفی سنّی ، شیعہ ، عیسائی ، ہندؤ ، احمدی ، اعتدال پسند دیوبندی و اہل حدیث ان ” جہادیوں ” کے جہاد کا نشانہ بنے ہیں
ایسے میں جب اس نام نہاد ” جہاد ” کا ” فساد ” ہونا روز بروز لوگوں کی آنکھیں کھول رہا ہے تو اس ” جہادی ایمپائر ” کے نظریہ ساز اور پروپیگنڈا ساز ملکر سازشی مفروضے گھڑنے میں مصروف ہیں اور وہ اس ” فساد ” کی اصل جڑ کو چھپانا چاہتے ہیں
فساد اور فتنہ کی فکری جڑ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے آنے والے پیروکار مولویوں کی تحریروں میں پوشیدہ ہے جن کی مدد سے اس نام نہاد ” جہادی تحریک ” کا خمیر اٹھایا گیا ہے
اور تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ محمد بن عبدالوہاب اور ابن سعود نے اپنی تحریک کو برطانوی سامراج کے تابع کیا اور پھر یہی ابن سعود اور وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ امریکیوں کے ساتھ ہوگئی جب دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے برطانوی سامراج کی جگہ لینی شروع کی اور سامراجیوں کی مدد سے مڈل ایسٹ میں بالخصوص اور پوری مسلم دنیا میں بالعموم غیر وہابی سنّی اور شیعہ کے خلاف ” نام نہاد علم جہاد” بلند کرڈالا
مسلم دنیا کے اندر آج جب یہ سوال جگہ ، جگہ اٹھائے جارہے ہیں کہ آخر یہ سب جہادی تنظیمیں اپنا جہاد مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں کررہی ہیں اور ان کا جہاد ” اسرائیل ” کے خلاف کیوں نہیں ہے ؟ اور یہ کمزور ، بے گناہ عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو ان کے محض عقیدے کے مختلف ہونے کی بنا پر گلے کیوں کاٹ رہی ہیں ؟ تو نام نہاد ” جہادی وہابی دیوبندی تحریک ” کے حامی دانشور اور صحافی اس ساری وحشت ناکیوں اور درندگیوں کو امریکی سی آئی اے ، بھارتی راء ، اسرائیلی موساد ، افغانستان کی راما کی کاروائیاں قرار دیتے ہیں اور ان کاروائیوں سے القائدہ ، داعش ، تحریک طالبان ، لشکر جھنگوی سمیت سب دیوبندی -وہابی نام نہاد جہادی تنظیموں کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں
ان دانشوروں کی یہ کوشش بھی ہے کہ اس دھشت گردی کی فکری بنیاد ” وہابی و دیوبندی فکر ” کے اندر تلاش کرنے کی کوششوں کو روکا جائے اور اس کوشش کو بھی امریکی سازش کہہ کر بدنام کیا جائے
اس طرح کی دھول آنکھوں میں جھونکنے کا کام وہ صحافی ، دانشور اور تجزیہ نگار کررہے ہیں جو دیوبندی -وہابی فکر کی تصوف دشمنی کو عظیم اسلام خدمت بناکر پیش کرنا چاہتے ہیں
ایسے صحافیوں میں ایک نام سلیم صافی کا ہے جو روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے اور جیو ٹی وی میں اپنے پروگرام جرگہ اور دیگر ٹاک شوز میں یہ کہتے ہیں کہ
” صوفی اسلام امریکی پروجیکٹ ہے جس کا آغاز 2001ء میں امریکی حکومت نے بہت بڑے فنڈ کو مختص کرنے کے بعد شروع کیا ”
سلیم صافی کی آواز کے ساتھ آواز ملانے والوں میں وہابی -دیوبندی دھشت گرد تحریک کو جہاد کہہ کر اس کی حمائت میں پیش پیش کئی ایک ریٹائرڑ فوجی ، بیوروکریٹس ، سیاست دان ، صحافی ، دیوبندی اور وہابی مولوی شامل ہیں
اگر سلیم صافی اور ان کے ہمنواؤں کی سازشی تھیوری کا جائزہ لیں تو نتیجہ یہ نکلے گا
صوفی اسلام 2001ء میں امریکیوں کے ذھن کی اختراع ہے اور اسے اسلام کے سچے اور صافی سرچشمے دیوبندی-وہابی اسلام کے مقابلے کے لیے تخلیق کیا گیا
اس مذکورہ بالا انکشاف عظیم سے یہ نتیجہ بھی سلیم صافی اور ان کے ہمنواء نکالتے ہیں کہ
صوفی اسلام کا یہ پروجیکٹ پاکستان سمیت پوری دنیا میں چلانے کا ٹھیکہ ڈاکٹر طاہر القادری سمیت کئی ایک لوگوں کو دیا گیا اور اس میں امریکیوں نے ایران کو بھی شریک کیا
اس کا یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ 2001ء میں ڈاکٹر طاہر القادری نے صوفی اسلام کو اختیار کیا
اس سے یہ نتیجہ بھی تو نکلتاہے کہ تصوف جو جنوبی ایشیا ء سے لیکر مڈل ایسٹ اور وہاں سے افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور پورے عالم اسلام میں لاکھوں مزارات ، آستانے ، خانقاہیں ، درگاہیں ، صوفی ازم کے ماننے والوں کی مساجد و مدارس موجود ہیں یہ سب کے سب 2001ء میں امریکی پروجیکٹ اور فنڈ سے وجود میں آگئے تھے اور صوفی مسلک جس کے ماننے والے پوری مسلم دنیا میں سب سے زیادہ ہیں بھی اس طرح سے امریکی پروجیکٹ کے ملازم ٹھہرے
وہابی اور دیوبندی جہادی تحریکوں کے جو باوا آدم تھے یعنی محمد بن عبدالوہاب اور شاہ اسماعیل دھلوی دونوں کے دونوں اپنی کتابوں (کتاب التوحید ، تقویۃ الایمان ) میں اور کئی ایک جگہوں پر یہ لکھ کر گئے ہیں کہ جب اسلام حجاز سے نکل کر عجمی سرزمین عراق ، ایران اور شام میں پہنچا اور اسی طرح سے وسط ایشیاء گیا اور پھر اس کا واسطہ ہند سے پڑا اور عالم اسلام میں یونانی کتابوں کے عربی تراجم ہوئے تو اسلامی خیالات میں عجمی خیالات کی آمیزش ہوگئی اور اسی آمیزش سے تصوف یا صوفی اسلام معرض وجود میں آیا اور یہ وہابی و دیوبندی نظریہ ساز صوفی خیالات کی بنیادیں اور ابتدائی تصورات کتاب اللہ ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں پاتے اور اسی لیے انھوں نے امت مسلمہ کی اکثریت کے مسلک اور دینی روش کو توحید ، رسالت سمیت فہم دین سے متصادم قرار دیا
وہابی اور دیوبندیوں میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں ہے جنھوں نے تصوف کو عیسائیت ، یہودیت اور مجوسیت کا ملغوبہ قرار دیا اور بعض نے اس کے ڈانڈے افسانوی کردار حسن بن سباء سے بھی ملائے
صوفی علماء اور دانشوروں نے ابن تیمیہ سے لیکر محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے بعد سعودی وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ اور دارالعلوم دیوبند اور اس کی شاخوں سے آنے والے چھپے وہابی مولویوں کی غلط بیانی ، مغالطوں اور دھوکے بازیوں کا پردہ خوب چاک کیا
سلیم صافی ، انیس الرحمان ، اوریا جان مقبول جیسے دیگر دیوبندی وہابی صحافی تجزئے کے نام پر یہ تک بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر صوفی اسلام 2001ء میں امریکیوں کی فیکڑی سے تیار ہوکر آنے والا برانڈ ہے تو پھر اس تصوف کے خلاف صدیوں پہلے شیخ ابن تیمیہ اور 20 ویں صدی میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور مولوی اسماعیل دھلوی وغیرہ کتابیں کیوں لکھ رہے تھے اور اس تصوف کے خلاف نجد ، حجاز ، عراق اور ہندوستان میں ان کی نام نہاد ” تحریک جہاد ” کا وجود کیسے ہوگیا تھا ؟
اگر تصوف اور صوفی اسلام 2001ء کا امریکی پروجیکٹ ہے تو پھر 1960ء میں سید قطب امیر اخوان المسلمون نے ” معالم فی الطریق ” کے نام سے صوفی اسلام کے خلاف ایک پوری کتاب کیوں لکھی اور اسی طرح کے خیالات سید مودودی نے اپنی کتاب ” احیائے اسلام و تجدید دین کی کوششیں ” میں کیسے کرڈالے تھے
وہابی تحریک کی تصوف اور صوفی اسلام سے دشمنی کی تاریخ تو وہابی تحریک جنم سے ہوگئی تھی اور دراصل اس تحریک کا مقصد بھی صوفی سنّی اسلام اور شیعہ اسلام کا خاتمہ رہا ہے اور دیوبندی ازم بھی فقہی اختلاف کو چھوڑ کر عقائد میں عین وہابی ازم ہی ہے
ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وہ قادری سلسلہ تصوف سے کوئی 2001ء میں وابستہ نہیں ہوئے بلکہ زمانہ طالب علمی میں وہ سلسلہ قادریہ سے وابستہ ہوگئے تھے اور جھنگ سے لاہور آنے تک اور پھر نائن الیون سے پہلے تک یعنی 1970ء سے لیکر 2000ء تک ان کی لاکھوں تقریریں اور 800 سے زائد کتابیں اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی ہیں کہ انھوں نے تصوف کو امریکیوں اور وہابی -دیوبندی جہادی تحریکوں کے درمیان لڑائی ہونے کی وجہ سے اختیار نہیں کیا تھا
آج تک کوئی ایک ٹھوس ثبوت اس بات کا موجود نہيں ہے اور نہ ہی امریکیوں کی اپنی کوئی تحریر اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کو یا ان کے اداروں کو کوئی پروجیکٹ تصوف کے حوالے سے دیا تھا
سلیم صافی سے یہ بھی تو پوچھا جانا چاہئیے کہ اگر صوفی اسلام امریکیوں کا پروجیکٹ ہے اور تصوف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش ہے تو پھر دار العلوم دیوبند کے بانی قاسم ناناتوی ، مولوی ذوالفقار علی ، مولوی یعقوب ، مفتی محمود حسن ، مفتی رشید احمد گنگوہی اور مولوی اشرف علی تھانوی نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی چشتی ، قادری ، صابری کے ہاتھ پر بیعت کیوں کی تھی؟ اور اشرف علی تھانوی نے اتر پردیش ہندوستان کے شہر میں سلسلہ قادریہ کے تحت خانقاہ کیوں قائم کی تھی ؟ اور دارالعلوم حقانیہ کے بانی مولوی عبدالحق حقانی اکوڑہ خٹک نقشبندی کیوں کہلاتے اور سند خلافت کیوں دیتے تھے اور لاہور میں مولوی احمد علی سلسلہ قادریہ کیوں چلاتے تھے ؟ میرے پاس دیوبندی مسلک کے اندر تصوف کے سلسلے سے جڑے درجن بھر نام اور بھی ہیں ۔ لیکن یہ سارے حقائق آج دیوبندی صحافی ، تجزیہ نگار اور ان کے مذھبی سکالرز اس لیے چھپانے پر تلے بیٹھے ہیں کہ ان کے سامنے آنے سے ایک تو سعودی عرب کی انتہائی مالدار تگڑی وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ ناراض ہوجائے گی ، دوسرا اس سے خود دیوبندی دھشت گرد تںطیموں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ بھی پول کھل جائے گا کہ ان کا خود کئی ایک اعتدال پسند دیوبندی مولویوں سے کتنا تعلق ہے جن کے نام کے جھنڈے انھوں نے اٹھا رکھے ہیں
سلیم صافی نے وہابی لابی کے سرکردہ ریٹائرڈ چیف آف آرمی سٹاف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی حمید گل کی اپنے حالیہ کالم میں بہت تعریف کی ہے اور ان کا پاکستان ، اسلام اور جہاد سے مخلص ہونے کی گواہی ایسے دی ہے جیسے ان کے خلوص پر قرآن اور حدیث میں کوئی سند آگئی ہو ، اس کے باوجود کہ ان کے بارے میں یہ کہا کہ
” اسلم بیگ اور حمید گل سازشی تھیوریز کے پیش کرنے میں بہت آگے ہوتے ہیں ”
اصل میں سلیم صافی نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اسلم بیگ اور حمید گل ” سازش ” کے نام پر جھوٹ گھڑنے میں ماہر ہیں لیکن چونکہ ان کا جھوٹ دیوبندی و سلفیوں کو فائدہ پہنچانے والا ہوتا ہے اس لیے اس کو پھیلانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے
سلیم صافی نے اس کالم میں یہ بھی کہا کہ لبرل و سیکولر لابی ڈاکٹر طاہر القادری کی حمائت کررہی ہے
اتنا بڑا جھوٹ وہ بڑے دھڑلے کے ساتھ بول گئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی نام نہاد لبرل و سیکولر لابی کے جتنے بڑے نام ہیں وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف نواز شریف کی حمائت میں ملّا فضل الرحمان ، احمد لدھیانوی کے ساتھ کھڑے ہوگئے
کس کس کے نام ہیں جن کی مہر ڈاکٹر طاہر القادری کے قتل نامے پر نہیں لگی اور قادری زبان حال سے کہتے ہیں کہ
لاؤ تو سہی مرا قتل نامہ، میں بھی دیکھ لوں
کس ، کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی

صافی

Leave a comment